Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

”ویل ڈن یار! کیا غضب کی اداکاری کرتی ہو تم  ایک لمحے کو تو میں بھی یہی سمجھی تھی کہ تم سچ مچ گر گئی ہو مگر…“ کمرے میں پہنچتے ہی عادلہ نے اس سے ستائشی لہجے میں کہا تھا۔

”خوامخواہ ہی تو راحیل میرا دیوانہ نہیں ہے۔“

”کیوں نام لیتی ہو راحیل کا تمہیں معلوم ہے وہ تمہارے ساتھ بالکل سنجیدہ نہیں ہے  جیولری لے کر بھاگا ہوا ہے۔

”پھر تم نے وہ ہی بات کی  جس سے مجھے چڑ ہے  راحیل کے خلاف بات کرنے والوں سے مجھے نفرت ہے اور تم جو کل تک طغرل کے اس حد تک خلاف ہو گئی تھیں کہ اس کو زندہ ہی نہیں دیکھنا چاہتی تھیں اور آج بھی تمہارے دل میں اسے پانے کی چاہ باقی ہے۔“ وہ بھی تیوڑی بدل کر گویا ہوئی تھی۔

”طغرل کی بات دوسری ہے وہ ہمارے خاندان کا فرد ہے۔
(جاری ہے)


”راحیل بھی مجھ سے شادی کے بعد ہمارے خاندان کا فرد بن جائے گا۔
“ وہ ترکی بہ ترکی بولی  بے حد بے خوفی تھی اس کی آنکھوں میں۔

”عادلہ! دیکھو یہ دنیا کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر چلتی ہے  سیدھی بات یہ ہے کہ میں اگر تمہاری مدد کر رہی ہوں تو کسی محبت میں نہیں کر رہی ہوں بلکہ اس وقت ہم دونوں کا مفاد ایک دوسرے سے وابستہ ہے  تم میری مدد کرو گی تو میں تمہاری مدد کروں گی۔“

”اچھا ٹھیک ہے تم جیسا چاہو گی  میں وہی کروں گی۔

”اوکے  یہ ہوئی نا بات۔“

”تم طغرل کو کسی طرح بھی میرا ہونے پر مجبور کر سکتی ہو؟ کوئی ایسا طریقہ بتا دو پلیز  جو اسے میرا بنا دے۔“ وہ جذباتی انداز میں اس سے کہہ رہی تھی۔

”یقین کرو  وہ تمہارا نہیں ہوگا تو پری کا بھی نہیں ہوگا  بس اس کیلئے تم کو میرا ساتھ دینا ہوگا۔“

”میں نے کہا نا میں تمہارا ساتھ دوں گی  جو تم کہو گی وہ میں کروں گی  مجھے صرف طغرل کی محبت چاہئے۔

###

زندگی کا ایک نام سمجھوتہ بھی ہے۔

جب حالات ہمارے موافق نہیں ہوتے ہیں اور ہماری سوچوں اور خواہشوں سے زندگی متصادم ہونے لگتی ہے تو پھر سب کچھ اسی طرح بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے جس طرح اس نے جینے کا ہنر سیکھ لیا تھا  سب کچھ بھلائے وہ اس گھر میں رہ رہی تھی جو اس کیلئے پناہ گاہ بھی تھا اور عقوبت گاہ بھی تھا۔

جہاں زندگی صرف دادی جان کی صورت میں مہربان نظر آتی تھی ورنہ نفرت  بے گانگی اور بے پروائی کی فضا ہر سو قائم تھی۔

”پری! کیا سوچ رہی ہو تم بیٹی؟“ وہ نماز ادا کرکے کمرے میں داخل ہوئیں تو پری کو بہت گہری سوچ میں گم دیکھ کر گویا ہوئی تھیں۔

”کچھ بھی نہیں دادی جان!“ وہ اٹھ کر بیڈ شیٹ درست کرنے لگی۔

”کیوں سوچتی ہو اتنا؟ اگر ہماری سوچوں سے سب بدلنے لگتا تو صدیوں پہلے سب کچھ بدل چکا ہوتا بیٹی!“ وہ بیڈ پر نیم دراز ہوتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔

”سوچوں سے نہیں دعاؤں سے تو سب بدلتا ہے دادی! مگر میری تو دعائیں بھی رد ہو جاتی ہیں  میری ایک بھی دعا آج تک قبول نہیں ہوئی  کیا اللہ مجھ سے ناراض ہے؟ کیا میں بہت بری بندی ہوں اللہ کی؟“ وہ ان کے قریب بیٹھ کر پوچھ رہی تھی۔

”اللہ تو ستر ماؤں سے زیادہ چاہنے والا ہے  شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے بندے کے۔ وہ ہمارا رب ہے اس کی چاہت جیسی چاہت تو کسی کی نہ ہے اور نہ ہو گی۔
اللہ کی اپنے بندوں سے چاہت اور محبت کی اس سے زیادہ اور واضح دلیل کیا ہو گی کہ آدم کو فرشتوں سے سجدہ کروا کر اپنا نائب ہونے کا ثبوت دے دیا اس پروردگار نے۔“ وہ نرمی سے اس کو سمجھا رہی تھیں جو ان کو دیکھ رہی تھی۔

”اللہ سے ہمیشہ اچھا گمان رکھا کرو بیٹی! اس کے ہر کام میں بہتری ہے جو ہم کو سمجھ نہیں آتی اور ہم اپنی بساط کے مطابق سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔

”آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں دادی جان! میں ہی دن بدن قنوطی ہوتی جا رہی ہوں  نامعلوم کیا کیا الٹی سیدھی سوچیں ذہن میں بے چینی پھیلائے رکھتی ہیں۔“ وہ شرمندہ سی ہو کر ان کے پاؤں دبانے لگی تھی۔

”جیسے جیسے بڑھاپا میری ہڈیوں کو کمزور کرتا جا رہا ہے اسی طرح مجھے تنہائی  بے بسی اور کمزوری کا احساس جکڑنے لگا ہے اور میں تمہارے دل کی حالت کو سمجھنے لگی ہوں پری۔
“ وہ اٹھ کر بیٹھ گئیں اور اس کے سر پر اپنا نحیف و نزار ہاتھ رکھ کر پشیمان لہجے میں گویا ہوئی تھیں۔

”سارے رشتے میرے اردگرد موجود ہیں مگر پھر بھی میرے اندر تنہائی کا ایک جنگل اگ آیا ہے جہاں ہر سو بے بسی کے کانٹے پھیلے ہوئے ہیں اور تم میری بچی!“ انہوں نے اسے سینے سے لگا کر گلوگیر لہجے میں کہا۔

”ماں اور باپ کے ہوتے ہوئے بھی ان رشتوں کی چمک اور خلوص سے محروم ہو  آئے دن ماں کے سوتیلے پن کا شکار ہوتی رہتی ہو  بہنیں تمہیں بہنیں نہیں سمجھتی ہیں۔

”دادی جان آپ ہیں نا میرے ساتھ  مجھے کسی کی پروا نہیں ہے  کوئی مجھ سے محبت کرے یا نہ کرے مجھے فرق نہیں پڑتا ہے۔“ آنچل کے پلو سے اس نے ان کی نم آنکھیں صاف کی تھیں۔

”میں آصفہ اور عامرہ کو دودھ نہیں بخشوں گی  بہت ظلم کیا ہے انہوں نے تمہارے ساتھ  پھوپو اور بھتیجی کے رشتے کو کلنک لگا دیا ہے ان دونوں نامرادوں نے۔“

”دادی جان! ایسا مت کریں  معاف کر دیں ان کو۔

”ہرگز نہیں  ارے صباحت تو غیر ہے لیکن وہ دونوں تو میری اپنی بیٹیاں ہیں  میری کوکھ سے جنم لیا ہے۔“ ان کا ملال و دلگرفتگی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔

”آپ لیٹیں میں چائے بنا کر لاتی ہوں آپ کیلئے۔“ وہ ان کو بہلاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔

###

کورٹ کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے لمحے بھر کو اس کے قدم ڈگمگائے تھے  دل میں ایک مانوس سی ہلچل پیدا ہوئی تھی اور دل اتنی تیزی سے دھڑکنے لگا تھا کہ اس کی لرزش اس کے ہاتھ سے ساحر خان کو بھی محسوس ہوئی تھی۔

”کیا ہوا؟ کیوں اس قدر نروس ہو رہی ہو؟“ اس نے چونک کر استفسار کیا تھا۔

”ساحر! مجھے فیل ہو رہا ہے  ممی پاپا رو رہے ہیں بہت تیز اونچے انداز میں  ان کی سسکیاں مجھے ہر طرف سے سنائی دے رہی ہیں۔“ وہ جو بہت خوشی خوشی اس کے ہمراہ کورٹ کے احاطے میں داخل ہوئی تھی اور اب چند سیڑھیاں چڑھنے کے بعد ہی وہ ادھر ادھر دیکھتی ہوئی وحشت زدہ لہجے میں کہہ رہی تھی۔

”کم ان ڈارلنگ! یہ کیا تم نے ایک مڈل کلاس گرل کی مانند اپنی ٹیوڈ دکھا رہی ہو  ایسی باتیں تو غریب گھرانے کی لڑکیاں کرتی ہیں  تم میں یہ اسٹائل کہاں سے آیا  تمہارا اسٹیٹس تو ہائی ہے۔“ اس کے حیرانگی سے کی گئی بات رخ کو فوراً ہی اپنی غلطی کا احساس دلانے لگی اور وہ بے ساختہ امڈ آنے والے آنسوؤں کو صاف کرکے مسکر کر گویا ہوئی۔

”لڑکی کسی بھی کلاس سے بی لانگ کرتی ہو ساحر صاحب! شادی کیلئے اس کے دل میں ارمان ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں۔
مایوں  مہندی  بارات  کیا کیا ارمان نہیں ہوتے ہیں دل میں۔ یہ جس طرح سے ہماری شادی ہو رہی ہے  اس طرح خامشی سے تو جنازہ بھی نہیں اٹھتا ہے ہمارے ہاں۔“ وہ تیزی سے اپنا دفاع کرتی ہوئی گویا ہوئی تھی۔

”ڈونٹ وری یار! بے حد گرم جوشی سے اس کا ہاتھ دباتا ہوا جذباتی انداز میں سرگوشی کرتے ہوئے گویا ہوا۔

”ہم میرج کر لیں اس کے بعد میں بہت جلد تمہاری ڈاکومنٹس تیار کروا لوں گا او رپھر ہم ہنی مون کیلئے سوئٹزر لینڈ چلیں گے۔

###

”اگر ایک کپ چائے ہمیں بھی عنایت کی جائے تو ذرہ نوازی ہو گی۔“ وہ بے پاؤں کچن میں داخل ہوا تھا اور وہ فریج سے دودھ کا پیکٹ نکال رہی تھی  بہت قریب سے ابھرنے والی اس کی بھاری و دلکش آواز سن کر بری طرح سٹپٹا گئی تھی۔

”مانا کہ میری آواز ازحد خوبصورت ہے مگر اب ایسی بھی حسین نہیں ہے کہ آپ بے ہوش ہونے لگیں۔“

”فرش پر گرنے والا پیکٹ اٹھا کر کاؤنٹر پر رکھتے ہوئے وہ شوخ لہجے میں گویا ہوا تھا۔
ساس پین میں پتی ڈالتی ہوئی پری کے چہرے پر گہری سنجیدگی پھیلتی چلی گئی تھی۔

”آپ یہاں سے جائیں میں خیراں کے ہاتھ چائے بھیج رہی ہوں۔“

”خیراں کے ہاتھ کیوں بھیجو گی؟ تمہارے ہاتھ کو کیا ہے؟“

”طغرل بھائی! پلیز میں سیریس ہوں اور نہ ہی میرا اس وقت جوک سننے کا موڈ ہو رہا ہے۔“ وہ اسٹینڈ سے ساسر اور کپ نکال کر ٹرے میں سیٹ کرتے ہوئے قدرے ناگوار لہجے میں بولی۔

”میں نے کوئی جوک نہیں سنایا  بہت سیریس انداز میں پوچھا ہے کہ چائے تم کیوں نہیں لا سکتیں؟ خیراں کے ہاتھ کیوں بھیجو گی؟ ویسے بھی تمہیں میرا بے حد احسان مند ہونا چاہئے  بہت خیال رکھنا چاہئے میرا۔“

”کس خوشی میں؟“ وہ چمک کر گویا ہوئی۔

”اپنے زندہ رہنے کی خوشی میں  اگر پرسوں مجھے ذرا بھی دیر ہو جاتی تو آج تمہارے سوئم کی بریانی کھا رہے ہوتے سب۔
“ اس کے شوخ لہجے میں طنزیہ کاٹ بھی تھی۔

”آپ یہ احسان مجھ پر کب تک جتاتے رہیں گے؟ میں نے آپ سے التجا نہیں کی تھی کہ آپ میری جان بچائیں۔“

”ارے بڑی احسان فراموش لڑکی ہو تم  میرا شکریہ ادا کرنے کے بجائے طنز کر رہی ہو۔“ وہ اسے گھورتے ہوئے بولا۔

”آپ کے قدموں میں پڑی رہوں؟ اور کس احسان کا شکریہ ادا کروں؟ ایک جہنم سے بچا کر دوسرے جہنم میں دھکیل دیا ہے مجھے۔“ وہ چائے فلاسک میں ڈالتی ہوئی کچھ ایسے انداز میں گویا ہوئی تھی کہ لمحے بھر کو ششدر سا اسے دیکھتا رہ گیا تھا۔

   1
0 Comments